حسد اور رشک

   حسد اور رشک کوئی ظاپری اعمال نہیں۔، اور نہ ہی ان کا کوئی ظاہری وجود ہے یہ انسان کی سوچ سے جنم لینے والی دو خواہشیں ہیں اور کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی بھی ہیں ۔ ۔ لیکن ان میں سے ایک کے متعلق آتا ہے کہ وہ سب نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ اور ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس سے بچنے کا حکم دیا ہے لیکن دوسری خواہش کو اچھا کہا گیا ہے ۔۔

 سادہ سے انداز میں حسد کسی بھی دوسرے انسان کی عزت ، مرتبہ ،حیثیت ، دولت ۔تعلقات اور عہدے کے چھن جانے کی خواہش کا نام ہے ۔۔ اور رشک یہ کہ دوسرے کی صفات کے حصول کی خواہش کرنا حسد کیے بغیر ۔۔۔

 چلیں اب ان دو خواہشوں کے بارے میں تھوڈی سی مزید بات کر لیں ۔ تاکہ ان کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 حسد کی خواہش ایک باطنی بیماری ہے جو انسان کی روحانی کیفی
ت کو ختم کر دیتی ہے ۔روحانی مسافر کے لیے یہ بہت بڑی رکاوٹ ہے ،یہ نیکیوں کو کھانےکے ساتھ انسان کی روحانی نسبت کو بھی کمزور کر دیتی ہے ۔اس بیماری کے پیدا ہونے کی کئی وجوہات ہیں ۔

اس کائنات میں الگ الگ مزاج کے لوگ ہیں ۔اور یہ حسد کی بیماری بھی ہر مزاج میں الگ انداز سے داخل ہوتی ہے ۔ اگر کسی کی ذات سے اختلاف ہو تو اسی اختلاف کی اوٹ میں ہم اس شخص کے متعلق حسد میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ جب خواہشات لا محدود ہوں اور وسائل اور حوصلہ کم ہو تو بھی لوگوں کے بارے میں ہم حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔دوسروں کو اپنا محتاج بنانے کی آرزو بھی حسد کی بیماری کو جنم دیتی ہے ،۔۔۔۔

کسی نے پوچھا کہ بارش کا فائدہ کیا ہے " تو جواب ملا کہ میری فصلیں سیراب ہوتی ہیں ۔ ،پھر پوچھا کہ بارش کا نقصان کیا ہے تو جواب ملا کہ " میرے بھائی کی فصلیں بھی سیراب ہو جاتی ہیں " یہی حسد ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کسی نے ایک کبڑے آدمی سے پوچھا کہ تیری سب سے بڑی پریشانی کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ "لوگ سیدھے کیوں ہیں " بس یہی سوچ حسد ہے ۔

میرے صاحبو " یہ سب تقسیم اللہ سوہنے کی ہے ہم کو حسد کی بجائے اپنے مزاج کو تسلیم کرنے والا بنانا چاہیے ۔ ہر آدمی کو جس مقام پہ رکھا گیا ہے اس میں قدرت کی بہت سی حکمتیں ہیں ۔ ۔ اس ساری تقسیم سے بہتر اور کوئی تقسیم ہو ہی نہیں سکتی ۔ہمیں ہر فعل میں فاعل حقیقی کی منشاء کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے شیخ کامل حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ :"جو کسی کی خوشحالی پرحسد کرتا ہے وہ تقسیمِ رزق کی حکمت کا منکر ہے!" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالک وٹو 3 اکتوبر 2015

No comments: