داستان سراےؑ کا کاسنی کمرہ |
آو خوابوں کے جزیرے کوجلا دیتے ہیں
بہزاد
میرے خیال میں کاسنی رنگ اس شعر کے سوا کچھ نہیں۔۔۔
انسان یاد، رنگ، کیفیات اور چند احساسات کے سوا جانور ہی ہے۔ پتا نہیں کیوں مجھے ہمیشہ سے کچھ چیزیں اپنا احساس مسلسل دلاتی رہی ہیں کہ ہمیں بھی سنا، سمجھا، پرکھا ارو جیا جاےؑ۔ ایسا ہوتا ہے نا کہ کبھی کبھی لکیر سانپ سے زیادہ پرکھی جانے لگ جاتی ہے۔ یہ ہھی ایک ایسا ہی تجربہ تھا۔۔
ہم بچپن میں غریب ہوتے تھے۔ شاید اللہ نے اپنے احسانات اور فطرت کے الطاف غرباؑ کیلیے ہی رکھے ہیں۔ گاےؑ کیلیےؑ گھاس کاٹتے ہوۓ میری بہن نے پہلی دفعہ مجھے کاسنی دکھاییؑ۔ ایک خود رو جڑی بوٹی جس کے پھول جامنی بنفشی رنگ کے تھے۔پتا نہیں کیوں اس وقت میری آنکھیں بھر آیؑیں۔ اس دن سے آج تک فالسہ اور جامن میرے پسندیدہ پھل ہیں ۔۔۔ شاید رنگ کی وجہ سے۔۔
اور جس عورت کیلیے میں پہلی دفعہ رویا اس نے ہھی اس دن اسی کاسنی رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔۔۔ :(
پتا نہیں کیا اسرار ہے۔۔۔ شاید۔۔۔۔۔ پر شاید نہیِں، حقیقتی طور پہ کاسنی رنگ اسرار ہے۔۔۔
رنگ بھی ایک زبان ہے، ایک احساس ہے، ایک فکر ہے۔۔۔ رنگ جب سانس لیتا ہے تو رنگین مزاج سان پہ چڑھا دیے جاتے ہیں۔ صاحبو!! یہ حقیقت ہے کہ رںگ ایک پوری کی پوری زندگی ہے۔۔۔
وہ کمرہ جہاں قدرت اللہ شہاب رہا کرتے تھے۔۔ |
جب پہلی دفعہ مجھے پتا چلا کہ داستان سراےؑ میں وہ کمرہ جہاں قدرت اللہ شہاب ہمیشہ رہایؑش پذیر ہوتے تھے، کاسنی کمرا کے نام سے جانا جاتا ہے تو میرے منہ سے پہلا جملہ جو نکلا وہ یہ تھا "اچھا!!! آپ بھی کاسنی ہو؟؟؟"
نوٹ: سہیل تاج جنہوں نے اس کمرے کی تصاویر مجھے دکھایؑیں، ان کا بے حد ممنون ہوں اور اردو میں کاسنی کمرہ انہی کے کہنے پہ لکھ رہا ہوں۔۔ اس سے پہلے کاسنی کمرہ انگریزی میں لکھا تھا جو کہ یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔۔۔
No comments:
Post a Comment