دفتری میں

صاحب ہونا جہاں باعث فخر بھی ہو شاید مگر  میری نظر میں نری خود احتسابی ہے... لمحہ بہ لمحہ بدلتی رتوں کے جھڑتے پتوں سے ایک کامیاب صاحب آدمی نکلتا ہے مگر ایک ناکام صاحب آدمی ان رتوں سے مبرا اپنے اندر کی اڑان بھرتا ہے اگر مثبت رہے تو..

ہر صاحب آدمی کا ایک دفتر بھی ہوتا ہے.. اور دفتر کے ساتھ ایک رنر یا آفس بوائے بھی ہوتا ہے... کسی بھی کامیاب آدمی اور بالخصوص صاحب آدمی کے پیچھے ایک کامیاب عورت کا ہاتھ ہوتا ہے... لیکن ناکام صاحب آدمی کو ایک کامیاب رنر ناکام بناتا ہے... صاحب  کا دفتر رنر پہ چلتا ہے جیسے گھر بیوی کے بل بوتے پہ...

میرا بھی ایک رنر رہا اور بہت کامیاب رنر رہا... کیونکہ میں خود ناکام صاحب سا آدمی ہوں.. اور مجھے اس اعتراف کے بعد اپنا دفتر کچھ اپنا اپنا سا لگنا شروع ہو گیا ہے...

ایک سال پہلے میں ایک دوست کی شادی میں گیا اور رنر سمیت مجھے راتوں رات ڈیرہ اسماعیل خان سے سیالکوٹ آنا پڑا.. اسے کامیاب رنر کی دوراندیشی کہیں یا میری سادگی کہ میں گائوں کا پہلا افسر ہونے کے ناطے لٹھے کا سوٹ پہنے مظفرگڑھ سے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا تو میرا رنر اسی رنگ اور اسی لٹھے کا سوٹ پہنے مجھے خوش آمدید کہنے کو کھڑا تھا..

شادی کے بعد میں نے اسے سیالکوٹ ساتھ چلنے پہ راضی کر لیا لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے ہوئے رنر نے رے بین کی عینک لگائی... اور تلہ گنگ میں تو پولیس والے نے ہم دونوں کو بھائی بنا دیا... اب مجھے نہیں پتا کیوں میں اندر اندر سے اپنے آپ کو چھوٹا ہوتا محسوس کر رہا تھا.. کبھی کبھی ہم انسان ہوتے ہوئے بھی دوسرے کو انسان بننے تک کی جگہ بھی نہیں دے پاتے... صرف اس وجہ سے کہ وہ ہمارا ماتحت ہوتا ہے...

پھر مجھے صاحب ہونے کے ناطے اچھا سمارٹ فون رکھنے کا بھی خیال آیا.. اس دن جب میں دفتر آیا تو سب سے پہلے جیب سے HUAWEI کا انڈرائڈ سمارٹ فون نکال کر میز پہ رکھا.. پھر زرا فخریہ انداز میں رنر کو اندر بلایا.. پتا نہیں کیسے رنر کو افسر کے ارادوں کا غیر ارادی طور پر علم ہوتا رہتا ہے... جیسے ہی رنر اندر آیا اس کے ہاتھ میں Google NEXUS  تھا ... اور ایک ہفتہ پہلے جب میں نے اس احساس کمتری کی خفت مٹانے کو  Samsung Galaxy  خریدا تو اسی دن میرے رنر کے ہاتھ میں Iphone تھا... میں اندر اندر اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کر رہا تھا...

پھر کچھ یوں ہوا کہ میرا تبادلہ  بلوچستان کے ایک دور دراز علاقے میں ہو گیا.. اور اس دن مرے رنر کو پہلی دفعہ میرے سامنے الجھا الجھا سا پایا گیا.. پوچھنے پہ پتا چلا کہ" سر آپ مان دیتے ہیں... آپ ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ ہمارے ہیں... پتا نہیں کیوں کچھ افسر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم ان کے ہیں، ان کے اپنے نہیں"...

سنا ہے کوئی جھنگ کا ڈپٹی کمشنر بھی چار آنے رشوت قبول کر لیتا تھا... ناکام صاحب لوگ رشوت بھی لے لیتے ہیں کبھی کبھار.. پتا نہیں شاید بلوچستان میں کوئی دو آنے مجھے بھی دے ہی دے...
پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ
بہزاد

No comments: