اکلاپا

تحـــریر ۔۔۔ سالک وٹو ۔۔
'' اکلاپا
زندگی ہر لمحہ اپنا روپ بدلتی رہتی ہے۔انسان ہر حال سفر پہ ہے وجودی سفر ہو یا خیالی سفر۔بڑے بڑے حادثوں میں بھی یہ سفر جاری رہتا ہے۔زندگی میں کئی دفعہ ایسے نازک موڑ بھی آ جاتے ہیں جب انسان زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے۔حادثے۔بیماری اور حالات زندگی میں کئی دفعہ انسان کو موت سے آشنا کرا دیتے ہیں۔۔ایسے نازک موڑ سے بچ جانا کوئی حادثاتی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ سب قدرت کے کھیل ہوتے ہیں۔ جن لوگوں سے کوئی خاص کام لینا ہوتا ہے انہیں وہ خود مایوسی سے یقین کی طرف بلا لیتا ہے۔۔
انسان کے آنے اور جانے کے درمیانی زمانے کا نام ہی زندگی ہے۔ہمارا سارا کھونا، پانا،محبتیں، نفرتیں اسی زمانے کی حد میں ہیں۔ہر جگہ اپنی ذات کو منوانے کی خواہش زندگی کے سفر کو تلخ بنا دیتی ہے۔۔ہر ملاقات کو آخری ملاقات سمجھو گے تو دل سے کدورتیں ختم ہو جائیں گی۔ہم سفروں کو ہم خیال بنا لو تو زندگی خوشگوار ہو جائے گی۔دوسروں کی خوشیاں چھن جانے کی خواہش ذہنی اذیت کے سوا کچھ نہیں۔ہماری گفتگو، عمل اور سوچیں ہماری کھیتی ہیں جو عنقریب ہمیں اپنے ہاتھ سے کاٹنا ہو گی۔۔ کسی کا دکھ سن کے دکھی ہو جانا اللہ کے فضل کی نشانی ہے۔انسانوں کےدکھوں کو سکھوں میں بدلنے کی خواہش زندگی میں کشادگی پیدا کر دیتی ہے۔دلِ بینا ہو تو آنکھ ہر رنگ میں اپنے خالق کے رنگ کو پا لیتی ہے،
پچھلی سردیوں میں میرے ایک دوست ڈسٹرکٹ ہسپتال ساہیوال میں زیر علاج تھے۔میں ان کی تیمار داری کے لیے ہسپتال پہنچا۔ایمر جنسی وارڈ میں داخل ہوا۔ کاؤنٹر سے مریض کا پوچھا تو مجھے انتظار کا کہا گیا۔کیوں کہ ایم۔ ایس۔ ایمرجنسی کے راؤنڈ پہ تھا۔میں راہ داری میں لگی ہوئی کر سیوں میں سے ایک کرسی پہ بیٹھ گیا۔ انسان بھی بڑی عجیب مخلوق ہے بعض اوقات بھیڑ میں بھی تنہا ہو جاتا ہے۔اور اکثر تنہائی میں بھی میلا لگا لیتا ہے۔میں بھی موجودہ ماحول سے بے خبر سوچوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے اپنے کندھے پہ بوجھ محسوس ہوا۔میں خیالوں کی دنیا سے باہر آیا تو دیکھا کہ ایک ضعیف،کمزور اور انتہائی مفلس حال بوڑھی عورت مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔میں نے ایک ہی نظر میں اس کا جائزہ لیا۔پھٹے پرانے کپڑے،پاؤں میں ٹوٹی چپل اور ایک بوسیدہ سے کمبل سے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ اس بوڑھی اماں جی کے ہاتھ میں ایک ایکسرے اور دوائیوں کی کچھ پرچیاں تھیں۔اس نے ڈرتے ڈرتے مجھ سے پوچھا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کب آئیں گے ؟ میں صبح سے آ ئی بیٹھی ہوں کوئی میری بات ہی نہیں سنتا۔میں نے نہایت ہی نرم لہجے میں کہا۔۔ماں جی مجھے ڈاکٹر کا تو پتا نہیں۔میں تو بس اپنے ایک دوست کا پتا کرنے یہاں آیا ہوں۔ اماں جی کو بار بار کھانسی کا دورہ پڑتا۔۔ میں نے مزید کہا ماں جی اتنی شدید سردی میں آپ دوائی لینے کیوں آئی ہیں اپنے بیٹے کو بھیج دیتیں۔۔۔۔ کیا آپ کا کوئی بیٹا نہیں ہے ؟ میرے سوال کے جواب میں اماں جی کی آنکھوں سے دو ٓآنسو نکلے اور چہرے کی جھریوں میں گم ہو گئے۔اس چہرے کی جھریوں میں ایک درد کا جہان آباد تھا۔ان آنکھوں میں زمانے کی محرومیاں مجھے واضح نظر آ رہی تھیں۔اماں جی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔۔۔۔۔۔ میرے دوبارہ استفسار پہ اماں جی بولیں تو اس کے لہجے میں دنیامیں دنیا جہاں کا درد اتر آیا۔۔ میرا ایک بیٹا ہے محمد شریف۔اللہ سوہنا اس کو اور خوشیاں دے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہتا ہے۔اور کبھی کبھی بس ملنے آ جاتا ہے۔ میں نے اگلا سوال کر دیا۔۔ ماں جی پھر آپ اکیلی رہتی ہیں؟۔۔ وہ بولی نہیں بیٹا اکیلی نہیں۔میں اور محمد شریف کا ابا دونوں رہتے ہیں گاوں میں۔۔میں نے پھر پوچھا۔تو آپ ہسپتال انہیں بھیج دیتیں۔ وہ بولی بیٹا : وہ بہت بیمار ہیں وہ تو چارپائی سے بھی نہیں اٹھ سکتے۔بس بیٹے کا روگ دل پہ لگا لیا ہے اور اسی روگ میں اپنے آپ کو ختم کیے جا رہا ہے۔۔ شاید دکھ کھول ے سے ہلکے ہو جاتے ہیں میں بھی ما تا ہوں اس بات کو اسی لیے ہم ایک دوسرے سے دکھ کھولتے رہتے ہیں یا شاید اس لیے کہ کچھ زخم ہم خود بھر اہی ہیں چاہتے اس لیے ہم اسے کریدتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اماں جی بھی اپنے زخم کرید ے لگی۔ وہ بولی۔۔۔بیٹا ہمارے پاس بھی گاوں میں زمین تھیں۔ہم بھی بڑے سکھی تھے،پھر محمد شریف کی پڑھائی کے لیے ساری جمع پو نجی لگا دی۔اور محمد شریف شہر میں ایک بڑا افسر بن گیا۔اور شہر میں ہی شادی کرالی۔پھر محمد شریف نے ہماری زمین بھی بکوا دی کہ ہم شہر میں گھر لیں گے اور وہاں ہی سکو ن سے رہیں گے۔۔۔ اس نے شہر میں ایک بڑا گھر بھی لے لیا ہے۔لیکن وہ ہمیں تو بھول ہی گیا۔ہم نے محمد شریف کی بچپن میں ہی منگنی اس کے ماموں کے گھر کر دی تھی لیکن اس نے وہ بھی توڑ دی۔اور اس لیے اب برادری بھی ہم سے دور ہو گئی ہے۔۔میری یہ کم بخت کھا نسی ہی جان نہیں چھوڑتی۔اور شریف کے ابا نے تو اپنے آپ کو روگ ہی لگا لیا ہے۔۔ بیٹا اس آخری عمر میں اکلاپے کا دکھ سہا نہیں جاتا۔سب دکھوں سے بڑا دکھ اکلاپے کا ہے۔موت کا فرشتہ بھی ہم کو بھول گیا ہے۔۔۔ میں روز گاوں سے آتی ہوں اپنی اور شریف کے ابا کی دوائی لینے۔لیکن یہ لوگ ڈاکٹر سے ملنے ہی نہیں دیتے۔۔۔ اتنے میں اس وارڈ سے متعلقہ ایک نرس آ نکلی۔ماں جی اس کی طرف متوجہ ہوئی تواس نرس نے بڑے غصے سے ماں جی کا بازو پکڑااور یہ کہتے ہوئے اسے راہ داری سے باہرلے جا نے لگی کہ۔اماں جی آپ کو کتنی بار کہا ہے کہ پہلے یہ سب ٹیسٹ کروا کے لاو پھر ڈاکٹر صاحب دوائی دیں گے۔۔۔ 
میں جلدی سے اپنے دوست کے پاس پہنچا۔جلدی سے تیمار داری کی رسمی کاروائی کی اور باہر کی طرف لپکا۔۔میں نے تیزی سے جا کے اماں جی کو روکا اور پوچھا۔کیا ہوا؟وہ بولی۔پتر یہ روز مجھے یہ کہ کے ہسپتال سے نکال دیتے ہیں کہ ٹیسٹ کروا کے لاو باہر سے۔اب میں کدھر جاوں۔میرے پاس کرائے کے تھوڑے سے پیسے ہوتے ہیں۔جو میں ٹوکریاں اور چھابے بنا کے کماتی ہوں۔ٹیسٹوں والے بات نہیں سنتے۔۔ میں ے کہا۔محمد شریف آپ کی مدد نہیں کرتا۔۔۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کے بولی۔اس کے شہر والے گھر کا تو مجھے پتا ہیں ہے۔اور گاوں وہ پہلے تو اکثر آتا تھالیکن اب دو تین مہینوں کے بعد آتا ہے اور تھوڑی دیر بیٹھ کے اپنے دکھ سنا کے چلا جاتا ہے۔۔اصل میں ہمیں محمد شریف کے پیسوں کی ضرورت نہیں بلکہ محمد شریف کی ضروت ہے۔ہماری بہو نے ہم سے ہمارا بیٹا چھین لیا ہے۔میں نے اماں جی کو کچھ پیسے دینے چاہے تو اس نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ بیٹے۔ہمیں کسی کے سہارے کی اب عادت نہ ڈالو اب ہمیں اپنے جسم کا بوجھ خود ہی اٹھا نا ہو گا۔۔
میں اماں جی کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔اور میری حالت بقول شاعر یہ تھی
۔ 
ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
یہ زندگی کے اصلی روپ اور دکھی کردار ہمارے درمیان ہی پھرتے ہیں۔لیکن ہم اپنی ذات کے خول سے باہر نکلیں تو کوئی دوسرا نظر آئے۔ہمارے تمام تر مفاد بس اپنی ذات سے ہی وابسطہ ہیں بس اپنی ذات کا ہی مادی فائدہ سوچنا انسان کو حقیقی مفاد سے دور کر دیتا ہے ا ور دوسروں کا احساس ہی ہمارے حقیقی مفاد کا ضامن ہے۔ کچھ تصویریں انسان کی روح میں پیوست ہو جاتی ہیں اور جاگتا ضمیر ان تصویروں کی جھلک انسانی شعور کو دکھاتا رہتا ہے۔ یہ غیروں کی باتیں نہیں ہیں۔خدارا انہیں دوسروں کی کہانیاں سمجھ کے بھول نہ جانا۔یہ تو ہم سب کی حقیقتیں ہیں۔اگر ہم اپنے والدین کے چہرے کی جھریوں میں دیکھیں تو زندگی کے کئی چہرے منعکس ہوں گے۔کتابوں کا علم اور ہے اور علم کی کتابیں دوسری بات۔چہروں کو دیکھنے والے گزر جاتے ہیں اور صورتوں کو پڑھنے والے ٹھہر جاتے ہیں۔اکلاپا دکھوں کا سرطان ہے۔والدین کو اکلاپے کا دکھ دینے والا بڑھاپے کے عذاب سے ضرور گزرتا ہے۔۔اکلاپا دور رہنے کا نام نہیں بلکہ دور ہو جانے کا نام ہے۔کبھی ہم نے سوچا کہ والدین کے چہرے کو دیکھنا عبادت کیوں کہا گیا؟اللہ پاک ہم کو بار بار اپنے والدین کا چہرہ دیکھنے کی ترغیب کیوں دے رہا ہے؟۔بس اسی لیے کہ اللہ سوہنا چاہتا ہے کہ بوڑھے والدین کی آنکھوں میں بے بسی نہ ہو۔ان کے چہرے کی جھریوں میں عذاب تنہائی نہ ہو۔اولاد کی توجہ ہی ان کے کا نپتے ہاتھوں کا سہارا ہے۔ ایک دن میں نے بابا جی سے پوچھا کہ بابا یہ اکلاپا کیا ہوتا ہے؟بابا جی بولے۔ سالک بیٹا، بوڑھے والدین کو یہ احساس دلا دینا کہ اب گھر میں ان کی کوئی اہمیت اور ضرورت نہیں ۔۔ بس یہی اکلاپا ہے۔ سالک وٹو

No comments: