انسان اور روح

تحریر ۔۔۔۔۔۔ سالک وٹو ۔۔۔ '
' انسان '' آئینوں کو کیا خبر اس بھید کی ۔۔ ایک چہرہ جسم کے اندر بھی ہے ۔ انسان کا چلنا ،پھرنا ، بولنا ،سوچنا ،رونا ، ہنسنا ، دیکھنا ، یہ سب کچھ روح کی بدولت ہے ۔اور اس دنیا میں انسان کے انسان سے جتنے بھی جذبے وابستہ ہیں ،یہ سب وابستگیاں بھی روح کی مرہون منت ہیں ،یہ لب و رخسار کے قصے ۔یہ ہرنی کی سی چالیں ،چاند سے چہرے ،جھیل سے گہری آنکھیں روح کے بغیر کسی کام کے نہیں۔ ایک جوان بیٹے کی میت اگر گھر میں پڑی ہوتو اس کی ماں کی کیا حالت ہو گی یہ الفاظ میں بتائی نہیں جا سکتی ،سب کچھ کے باوجود گھر والے اس کی تدفین کے انتظام میں جلدی کر رہے ہوں گے ،فرض کریں کوئی اپنے بیٹے کی میت کو دفنانے سے انکار بھی کر دے تو یقینا 2 دن بعد ہی اس بے کار ہڈیوں سے وحشت ہونے لگے گی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے سارے رشتے روح کی موجودگی سے ہیں ،یہ انسان کی انسان کی طرف کشش صرف روح کی وجہ سے ہے اور انسان کی ساری اہمیت و فضیلت بھی اسی کے دم سے ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ''واذا ونفخت فیہ من روحی فقعولہ سجدین '' اور جب میں اس (آدم علیہ السلام) میں اپنی روح پھونکوں تو تب اسے سجدہ کرنا ۔واضح ہوا کہ روح کی آمد سے ہی برتری اور فضیلت ملی ۔۔ ہم کہتے ہیں کہ ہاتھ پکڑتے ہیں ، پاؤں چلتے ہیں ،زبان بولتی ہے ۔کان سنتے ہیں ۔دماغ سوچتا ہے ،لیکن سب تمثیلی باتیں ہیں حقیقت ایسی نہیں ،کیوں کہ اگر روح جسم سے جدا ہو جائے تو ۔ہاتھ ،پاؤں ، کان ،دماغ سب کچھ صحیح سلامت ہونے کے باوجود اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں ۔مطلب یہ سب کام روح ہی کر رہی تھی جس کے جانے پہ سب کچھ رک گیا ۔۔۔۔آسانی کے لیے ایسے سمجھ لیں جیسے ایک گاڑی کو ڈرائیور چلاتا ہے ایسے ہی روح جسم کو حرکت دیتی ہے ۔اور یہی سب سے بڑا راز ہے ،کسی درویش نے اسے خودی کہا ، کسی نے اسے حقیقت انسان کہا ،کسی نے اسے چھپا خزانہ کہا ،ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ''الانسان سری وانا سرہ '' ( انسان میرا بھید ہے اور میں انسان کا ) دیکھیں کتنی بڑی بات بلا تفریق مذاہب اللہ سوہنے نے فرما دیا کہ انسان میرا بھید ہے ۔ایک اور جگہ فرمایا کہ ''قلب الانسان بیت الرحمن '' ( انسان کا قلب (روح) اللہ کا گھر ہے ۔ پس ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ سے بھی ہم کلام ہوا کریں ۔وجود سے ہٹ کے بھی سوچیں ۔یہ بولتا کوئی اور ہے ، یہ دیکھتا کوئی اور ہے ۔اسی لیے تو بابا بلھے شاہ نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلھیا' کی جاناں میں کون ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سالک وٹو

No comments: